۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
علوی گرگانی و خانم خزعلی

حوزہ / ایرانی نائب صدر برائے امور خواتین کی مراجع عظام تقلید و مختلف علماء سے ملاقات میں اسلام کے خواتین پر خصوصی توجہ اور آبادی میں کمی کو روکنے کی ضرورت جیسے موضوعات زیرِ بحث آئے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کے نامہ نگار کی رپورٹ کے مطابق ایرانی نائب صدر برائے امور خواتین محترمہ انسیہ خزعلی پیر کی صبح اپنے ایک روزہ دورے پر قم المقدسہ پہنچیں اور مراجع عظام تقلید اور مختلف علماء کرام سے ملاقات کی۔

نائب صدر برائے امور خواتین نے اپنے دورہ کا آغاز حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے روضۂ مبارک کی زیارت سے کیا اور وہیں حرم مطہر کے متولی اور  نمائندہ ولی فقیہ آیت اللہ سعیدی سے ملاقات کی۔

علماء کرام اور مفکرین کی ذمہ داری ہے کہ وہ حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کا تعارف کرائیں

آیت اللہ سید محمد سعیدی نے نائب صدر برائے امور خواتین محترمہ انسیہ خزعلی سے ملاقات میں جو کہ حرم حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا میں منعقد ہوئی تھی، کہا کہ کریمۂ اہل بیت حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی زیارت کے بہت سے پیغامات ہیں جن پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے اور عام لوگ اس زیارت کی بعض تشریحات کو نہیں سمجھ سکتے ہیں لہذا علماء کرام اور مفکرین کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کا صحیح طرح سے تعارف کرائیں۔

انہوں نے امام معصوم علیہ السلام کے اس فرمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ "حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی معرفت کے ساتھ کی جانے والی  زیارت مومنین کو جنت تک لے جائے گی"، کہا: ہم ان کے حقیقی مقام و مرتبہ کو درک نہیں کر سکتے ہیں۔

مجلسِ خبرگانِ رہبری میں قم کے عوام کی نمائندہ نے مزید کہا: حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا بلوغت سے پہلے ہی دینی مسائل سے مکمل آشنائی رکھتی تھیں اور ایک بار جب آپ نے اپنے والد گرامی کی غیر موجودگی میں بعض سوالات کے جوابات دئےاور جب حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے ان سوالات کے جوابات کو دیکھا تو فرمایا: "فداها ابوها" یعنی "(ماشاءاللہ) اس پر اس کا باپ بھی قربان جائے"۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے ساتھ سلوک اسلام میں خواتین کے اعلیٰ مقام کا پتا دیتا ہے۔

آیت اللہ حسینی بوشہری کی محترمہ خزعلی سے ہوئی ملاقات میں جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم کے سرپرست نے انہیں حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کی قم  آمد کی سالگرہ کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا: موجودہ دور میں آپ کو جو ذمہ داری سونپی گئی ہے وہ انتہائی سنگین ہے۔ وہی معاشرہ مطلوبہ اہداف و کمال تک پہنچ پاتا ہے جس میں خاندانی اقدار پر ان کی توجہ  دینی خواتین پر مرکوز ہو چونکہ ایک مسلمان مذہبی خاتون ہی بہترین انداز سے اولاد کی تربیت سمیت خاندان کے ماحول کو درست سمت میں ہدایت کر سکتی ہے۔

امام جمعہ قم نے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے ساتھ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسنِ سلوک کو دین اسلام میں خواتین کے اعلیٰ مقام کا مظہر قرار دیتے ہوئے کہا: یہ سچ ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولاد تھیں لیکن اس زمانہ میں اور حتی خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے پہلے بھی ایک لڑکی اور عورت کے ساتھ ایسے حسنِ سلوک کی کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔

جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم کے سرپرست نے کہا: ایک مسلمان عورت اپنی عفت اور حجاب کو برقرار رکھنے والی عورت ہے اور اس کا خاندان اس کا مرکز ہوا کرتا ہے تاکہ وہ اسلامی معاشرے کے مستقبل کے لئے صالح اولاد کی پرورش و تربیت کر سکے۔

انہوں نے کہا: ہمیں اپنے معاشرہ کے افراد سے عامرانہ اور زبردستی وغیرہ سے کام لیتے ہوئے نہیں کہنا چاہیے کہ وہ مذہب کے راستے پر چلیں۔ بلکہ یہ کام اسلام کا خوبصورت چہرہ دکھا کر اور گھٹیا مغربی تہذیب و ثقافت پر تنقید کرتے ہوئے بتدریج اور روشن خیالی کا متقاضی ہے۔

حوزہ علمیہ کی سپریم کونسل کے رکن نے کہا: معاشرے میں موجود مغربی ثقافت کی بھرمار پر تنقید کی جانی چاہئے۔ اسقاطِ حمل اور آبادی کو کنٹرول کرنے جیسے مسائل انتہائی سنگین اور کلیدی اہمیت کے حامل ہیں جن پر زیادہ سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

انقلاب اور دفاع مقدس کی صفِ اوّل میں خواتین کا کردار ناقابل انکار ہے۔

حضرت آیۃ اللہ نوری ہمدانی نے کہا کہ کسی بھی انسان کے لئے تعلیم و تربیت کے لحاظ سے حساس ترین دوراس کی ماں کی گود کا دور ہوا کرتا ہے۔ لہذا یہ جاننا ضروری ہے کہ صحیح عقیدے اور ثقافت کی حامل خاتون بچے کی پرورش میں کتنی کارآمد ہوتی ہے۔

حضرت آیۃ اللہ العظمی نوری ہمدانی نے نائب صدر برائے امور خواتین سے اپنے دفتر میں ملاقات کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خواتین سے متعلق مسئلہ بہت اہم مسئلہ ہے۔

انہوں نے کہا: میں نے اس موضوع کی اہمیت کو مدِنظر رکھتے ہوئے اس  پر ایک کتاب بھی لکھی ہے اور اس میں خواتین سے متعلق مسائل کے تمام زوایا اور پہلوؤں کو بیان کیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ زمانہ جاہلیت میں جب کسی کو اطلاع دی جاتی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بیٹی عطا کی ہےتو وہ بہت پریشان ہو جاتا تھا۔  خداوند متعال فرماتا ہے کہ یہ حکم اور فیصلہ بہت برا ہے کیونکہ مرد اور عورت دونوں انسان ہیں اور جو خوبیاں مردوں میں ہیں وہ عورتوں میں بھی ہیں۔

اس مرجع تقلید نے اس بات کی نشاندہی کی کہ اسلام میں عورت کو اعلیٰ مقام حاصل ہے جیسا کہ حضرت محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ والہ و سلم ماؤں کے مقام و منزلت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ" جنت ماؤں کے قدموں کے تلے ہے"۔

انہوں نے اسلامی معاشرے میں ماؤں کی تعلیم و تربیت کو اسلامی تہذیب کا ایک بہترین ذریعہ قرار دیتے ہوئے کہا: کوشش کریں کہ اسلام کے چہرے اور حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی شخصیت کی پہچان کراتے ہوئے تعلیم و تربیت کے ذریعے ماؤں کو بلند مقام عطا کریں۔

حضرت آیۃ اللہ نوری ہمدانی نے کہا: کسی بھی انسان کے لئے تعلیم و تربیت کے لحاظ سے حساس ترین دوراس کی ماں کی گود کا دور ہوا کرتا ہے لہذا یہ جاننا ضروری ہے کہ صحیح عقیدے اور ثقافت کی حامل خاتون بچے کی پرورش میں کتنی کارآمد ہوتی ہے۔

انہوں نے اسلامی اقدار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے مزید فرمایا کہ اسلامی معاشرے میں بہت سی اقدار موجود ہیں جن میں سے ایک عفت اور حجاب ہے۔ ہمارے معاشرے میں ان اقدار پر زیادہ توجہ دی جانی چاہئے۔

آیۃ اللہ العظمی حسین نوری ہمدانی نے انقلاب اسلامی کی کامیابی اور دفاع مقدس میں خواتین کے کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ہمارے ملک کی خواتین انقلاب اور دفاع مقدس کے دوران صفِ اوّل میں رہی ہیں اور انہوں نے اپنی صلاحیتوں کے مطابق بڑی سختیاں برداشت کی ہیں۔

میڈیا پر بعض اوقات خواتین کے شعبے میں ایسے پروگرامز پیش کئے جاتے ہیں جو اسلام اور خواتین کی شان کے مطابق نہیں ہیں۔

آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی نے نائب صدر برائے خواتین و خاندانی امور سے اپنی ملاقات کے دوران کہا: ہمیں خواتین کے حوالے سے پیچیدہ مسائل کا سامنا ہے۔ انقلاب سے پہلے خواتین آزاد تھیں اور ان پر ظاہراً کوئی پابندیاں نہیں تھیں لیکن انقلاب کے بعد ان کی اجتماعی اور دینی اہمیت کو دیکھتے ہوئے انہیں دین و مذہب سے آشنا کرایا گیا تاکہ ایک دینی معاشرہ پرورش پا سکے۔

اس شیعہ مرجع تقلید نے مزید کہا: انقلاب اسلامی کے بعد ظلم و جبر کی اصلاح کی گئی اور خواتین کے حالات کو اسلام کے موافق حالات میں بدلنے کی کوششیں کی گئیں اور مختلف علماء کرام کے توسط سے خواتین کے لئے بہت اچھے پروگرامز کا انعقاد کیا گیا۔

انہوں نے کہا: خواتین کے لیے بنائے گئے مدارس میں سے ایک "جامعۃ الزہراء(س) تھا جو واقعی قابل قدر ہے اور اس نے خواتین کے تعلیم و تربیت میں بہت پیشرفت بھی کی ہے۔ اسی ادارہ سے کئی ہزار خواتین اور بچیوں نے دینی پرورش پائی ہے۔

آیت اللہ مکارم شیرازی نے کہا: ہم امید کرتے ہیں کہ موجودہ حکومت اور میڈیا سے مربوطہ ادارے خواتین کی مذہبی اور دینی اہمیت کو مدِنظر رکھیں گے چونکہ میڈیا پر بعض اوقات خواتین کے شعبے میں ایسے پروگرامز پیش کئے جاتے ہیں جو اسلام اور خواتین کی شان کے مطابق نہیں ہوتے ہیں۔

 آیت اللہ علوی گرگانی نے آبادی میں حالیہ کمی کی طرف توجہ دلائی۔

حضرت آیت اللہ علوی گرگانی نے نائب صدر برائے خواتین و خاندانی امور سے اپنی ملاقات میں کہا: ہمیں امید ہے کہ مستقبل میں ان شاء اللہ آبادی میں اضافہ ہوگا اور ملک کی مستقبل کی ضروریات پوری طرح حل ہوجائیں گی۔

اس مرجع تقلید نے ملکی آبادی کو لاحق خطرات کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے کہا: حمل اور بچے پیدا کرنے سے روکنے کے متعلق انتہائی غلط معلومات پھیلائی جاتی ہیں لہذا ان مسائل کی وضاحت اور روک تھام ہونی چاہیے۔

انہوں نے حضرت امام علی علیہ السلام کی ایک حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: "حیا تمام انسانوں کے لیے اچھی چیز اور مطلوب ہے لیکن عورتوں میں حیا کا ہونا افضل اور زیادہ پسندیدہ ہے"۔

حضرت آیت الله علوی گرگانی نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا: زمانۂ جاہلیت میں عورتوں اور بچیوں کے ساتھ انتہائی نامناسب سلوک برتا جاتا اور بعثتِ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے لڑکیوں کو زندہ درگور کر دیا جاتا تھا لیکن اسلام نے عورت کو اس کا مقام دیا اور زندگی کے لحاط سے مرو و زن میں تفریق ختم کر دی۔

عورت اور خاندان کے زمرہ میں مبالغہ آرائی اور افراط و تفریط سے کام لینا انتہائی غلط ہے۔

آیت اللہ اعرافی نے بھی حوزہ علمیہ کے دفتر میں خواتین اور خاندانی امور کی نائب صدر محترمہ انسیہ خزعلی کے ساتھ اپنی ملاقات میں خواتین اور خاندان کی اہمیت اور مقام کی وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا: اگر ہم انقلابِ اسلامی کے پیغامات کو صحیح طرح سمجھیں تو پتا چلے گا کہ خواتین اور خاندان کا زمرہ انقلابِ اسلامی کے دس مرکزی مسائل میں سے ایک ہوگا جو انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

انہوں نے مزید کہا: مغربی تہذیب میں خواتین اور خاندان کا مسئلہ انتہا پسندی اور زیادتی کا شکار رہتا ہے اور وہاں جدید نظریات کی آڑ میں ہمیشہ خواتین کے حقوق کو پامال کیا جاتا ہے۔

حوزہ علمیہ کے سرپرست نے کہا: شہید مطہری رحمۃ اللہ علیہ نے عورتوں اور خاندان کے بارے میں اپنی کتب میں اس نمونہ کو بیان کیا ہے جو اسلام نے کہا ہے۔

قم کے امام جمعہ نے اسلام اور تاریخ تشیّع میں سینکڑوں خواتین راویوں اور محدثات کی موجودگی کا ذکر کرتے ہوئے کہا: ہم ہمیشہ صدرِ اسلام ، تشیّع اور حوزاتِ علمیہ کی شاندار تاریخ میں دیکھتے آئے ہیں کہ وہاں سینکڑوں خواتین راوی اور محدثات موجود ہیں۔

خواتین کے لیے تبدیلی کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔

ایرانی صدر کی خواتین اور خاندانی امور میں نائب محترمہ انسیہ خزعلی نے بھی ان ملاقاتوں میں کہا: خواتین اور خاندانی امور میں ہم خواتین کے دو اہم شعبوں میں امور انجام دے رہے ہیں جن میں سے ایک ملازمت کے میدان میں خواتین کو بااختیار بنانا اور دوسرا سماجی و معاشرتی مسائل سے نمٹنا ہے۔

انہوں نے مزید کہا: مواصلات کے شعبے میں ہونے والی مختلف پیشرفتوں کو دیکھتے ہوئے خاص طور پر سائبر اسپیس اور سوشل میڈیا میں نئے ایسے قوانین کو حکومتی ایجنڈے میں شامل کیا گیا ہے جو معاشرے میں خواتین کے مقام کو فروغ دینے کی راہ ہموار کرتے ہیں۔

محترمہ خزعلی نے ان ملاقاتوں میں مراجع عظام تقلید اور علماء کرام کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا: ان شاء اللہ خواتین کے شعبوں میں ہم ضرور علماء کرام اور مراجع تقلید کی قیمتی آراء سے استفادہ کریں گے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .